۴ آذر ۱۴۰۳ |۲۲ جمادی‌الاول ۱۴۴۶ | Nov 24, 2024
"شب شعر" بیاد شہید محسن فخری زادہ ؒ

حوزہ/ شہیدین کانفرنس ہال مدرسہ حجتیہ،قم،ایران میں قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم ،ایران کے زیر انتظام مجتمع آموزش فقہ عالی شہید محسن فخری زادہ کی یاد میں عظیم الشان پروگرام کا انعقاد ہوا۔

حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، آج جمعرات کی شب،بعد از نمازمغربین،بتاریخ ۱جمادی الاول۱۴۴۲ بمطابق۱۶ دسمبر۲۰۲۰ شھیدین کانفرنس ہال مدرسہ حجتیہ،قم،ایران میں قرآن و عترت فاونڈیشن علمی مرکز قم ،ایران کے زیر انتظام مجتمع آموزش فقہ عالی شھید محسن فخری زادہ کی یاد میں عظیم الشان پروگرام کا انعقاد ہوا،پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن مجید کے ذریعے ہوا،

جسکے لئے سید حسین محمد رضوی (یکسالہ حافظ کل قرآن) نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں اس مجلس کو نورانی بنایا انہوں نے قرآن مجید کی اس آیت (واقیمواالصلوٰۃ وآالزکوٰۃ وماتقدموا لانفسکم من خیر تجدہ عنداللہ،ان اللہ بماتعلمون بصیرۃ) اور تم نماز قایم کرو اور تم زکوٰۃ ادا کرو کہ جو کچھ اپنے واسطے پہلے بھیج دو گے سب خدا کے یہاں مل جائیگا، خدا تمہارے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے) کی تلاوت کی کہ جسمیں مومنین کو خداوند عالم یہ بتانا چاہتا ہے کہ کوئی بھی عمل بیکار نہیں ہوسکتابلکہ اسکی جزا خداوند عالم کے پاس محفوظ ہے۔محترم جناب احمد شہریار جو اس پروگرام کے ناظم تھے آپ نے آج کے اس پروگرام کو بہت مہم اور پر برکت پروگرام سے تعبیر کیا اور فرمایا یقینا شھید محسن فخری زادہ کی یاد دلوں کو زندہ کرتی ہے نفسوں کی طہارت کرتی ہے، آج کے اس معتبر ناظم نے شھید محسن فخری زادہ کے سلسلے سے فرمایا! آپ (محسن فخری زادہؒ) مہابادی جمہوری اسلامی ایران کے ایک نیک آفسر اور امام حسینؑ یونیورسیٹی تہران میں فزکس کے پروفیسر اور انتہائی قابل جوہری سائنسدان تھے،جنہیں ۲۸نومبرسن ۲۰۲۰ عیسوی کو ایران کے شہر تہران کے دماوند منطقے میں ایک دہشت گرد حملے میں شہید کردیاگیا،آپکی تاریخ پیدائش ۱۹۵۸عیسوی،کی درج کی گئی ہے،، شہیدکی یاد منانے والے تمام عشاق اہلبیت ؑنے ہر طریقے سے اس شب شعر کو کامیاب بنانے کی انتھک کوششیں کیں۔اس پروگرام کے مخصوص مقرر حجت الاسلام والمسلمین آقای صرفی معاونت فرھنگی [مجتمع آموزش فقہ عالی) نے اپنی افتتاحی تقریر میں فرمایاکہ: فخری زادہ کے قتل کا مقصد ایران و راہ انسانیت میں رکاوٹیں پیش کرنا تھا؟مرحوم کی شخصیت پر روشنی ڈالنے کیلئے ایک طویل فرصت درکار ہے مختصر طورپہ یہ کہا جاسکتاہے کہ! آپ کا ہم و غم راہ انسانیت کی ترقی تھی !آپ ہی کی ذات نے کرونا جیسی موذی مرض کی دوا بنانے میں پوری طاقت لگائی تاکہ لوگ ایک ٹھنڈی سانس لے سکیں اور اس دنیا میں چین سے زندگی بسر کرسکیں؟مگر کیا خبر تھی آپ اپنی اس خاص خدمت کو بھی آخری مرحلے تک نہیں پہوچاسکیں گے اور بدترین قوم کے ذریعے شہیدکئے جائینگے "ایساکہاں سے لاوں جوتجھ ساکہیں جسے"۔

ثقافتی امورکے مسئول و محترم کے بعد تسلیت نامہ بشکل نظم کا سلسلہ شروع ہوا جسمیں سب سے پہلے جناب حیدر جعفری نے بہترین کلام کے ذریعے دشمنوں کی اک پریشانی تھے وہ۔۔۔۔علم کے قاسم سلیمانی تھے وہ۔۔۔۔جنکے جیسے ملک میں بس چند تھے۔۔۔۔فخری زادہ ایسے دانشمند تھے۔

اس عظیم عبادت میں شریک ہوئے جناب حیدر جعفری کے بعد قیصر عباس الہ آبادی نے بھی بہترین لحن اور خوبصورت لہجے میں اچھے اشعارپیش کئے۔

جب اس پروگرام کے ناظم نے بہترین شاعر جناب سید عامر عباس عابدی نوگانوی کو دعوت دی تو آپ نے فرمایا! 
وہ جسکے دلمیں حسین تیری ولا کاجذبہ شدید ہوگا۔۔۔۔۔وہی بشرتوتیرے مقاصد کی آبروپر شہید ہوگا۔ہر نے اپنی توانائی کے حساب سے اس عنوان پرجدید فکر کا اظہار کیا، محترم زین العابدین خوئی جو عربی،فارسی،اردو یعنی تین زبانوں پر تسلط رکھتے ہیں فرمایا! فاطمہ زہراس کے بچے کا ملا نام مجھے۔۔۔۔اور ولایت کی حفاظت کا ملا کام مجھے،،کام سے میرے پریشان ہے صہیونی زادہ۔جب ناظم پروگرام نے بزم شعرکو ایک نئی اور جدید وادی میں لے جانا چاہا تو برجستہ شاعر محترم ابراہیم نوری کو آوازدی، زندگی خط ولایت پہ گزاری ہے جبھی۔ تذکرہ تیرا زمیں تابہ فلک ہے فخری۔۔تجھ سے سردار سلیمانی کی آتی ہے مہک ۔۔ تیرے چہرے سے عیاں ان کی جھلک ہے فخری۔

خوش نصیبی سے اس پاک بزم میں ایک نایاب وعظیم شاعربھی موجود تھے جنہوں نے نعت کو ہمیشہ اپنا وطیرہ بنایا اور کوشش کی جوضرورت ہے اسی پربھرپور قلم کو بروئے کارلایا جائے یعنی محترم عباس ثاقب، اس انقلاب و ولایت کے ملک پر ثاقب۔۔۔۔۔۔ابھی بھی خون شہیداں کافیض جاری ہے۔۔۔۔۔شہادتوں کا تسلسل ہیں محسن وقاسم۔۔۔۔ہر ایک شخص یہاں لشکروں پہ بھاری ہے۔ اس عظیم ہستی کے نام نامی کو عباس ثاقب کے نام سے جانا جاتاہے۔

حجت الاسلام والمسلیمن سید شمع محمد رضوی جو مختلف جہات سے ہمیشہ مصروف خدمت رہا کرتے ہیں انہوں نے بھی اپنا قیمتی وقت نکال کر شھید محسن فخری زادہ کی ترویح روح کے لئے رونق بخشی، آپ نے کلام میں یہ کوشش کی کہ کسی طرح مرحوم کے اوصاف کو قلمبندکیا جائے(نیک تھے صاحب ایمان تھے فخری زادہ۔۔۔۔ عاشق شاہ خراسان تھے فخری زادہ۔۔۔۔کل جوانوں کے لئے جان تھے فخری زادہ۔۔۔۔یوں کہوں شیرنیستان تھے فخری زادہ۔۔۔مجلس ونوحہ وماتم میں اگرحصہ لیا۔۔۔روزوشب پڑھتے بھی قرآن تھے فخری زادہ۔۔۔چودہویں رات سا چہرہ بھی چمکتادیکھا۔۔۔۔قاری سورہ عمران تھے فخری زادہ۔۔اپنے رہبر سے لیا تحفہ گراں خدمت خلق۔۔۔۔اسلئے جان سے قربان تھے فخری زادہ۔۔۔۔علم ودانش کے وظیفے پہ قیامت کا عمل۔۔۔۔آجکے جابرحیان تھے فخری زادہ۔۔۔۔بعد مرنے کے سلامی کے لئے آپہوچے۔۔بی بی معصومہ س کے مہمان تھے فخری زاد، اسی سبب شاندارکلام سے مومنین کے قلوب کو منور کیا۔ایک اوربزرگ شاعر اہلبیتؑ جنہیں جناب ضیغم بارہ بنکوی کے نام سے جانا جاتاہے انہوں نے بھی اپنے جذبات کا خوب اظہارکیا فخر پر کیوں نہ کرے وقت کا رہبر اس پر۔۔۔۔۔نازش ملت ایران تھے فخری زادہ ) ! محترم احمد حسین شھریار جو پروگرام کے ناظم بھی تھے اور ساتھ ساتھ آپ فرزندعلامہ اقبال کے نام سے پہچانے بھی جاتے ہیں خوبصورتی سے مذکورہ عنوان پر کلام پیش کئے آپکی خوبی یہ ہے کہ آپکا کلام جس مقدار میں اردو زبان میں حسین ہوا کرتاہے۔اسی طرح فارسی میں بھی یعنی بیک وقت ۲ملکی عوام بیک وقت ایک ہی شاعر کے خون جگر کلام سے جس سے معرفت کا سرچشمہ پھوٹتارہتا ہے سیراب ہوا کرتے ہیں یاد شہید کے اس مبارک پروگرام کے صدر حجت الاسلام والمسلمین مولانا سید احتشام عباس حشم جونپوری نے اپنے مخصوص لب ولہجے میں انقلابی اشعارپیش کئے جنکا سامعین کرام نے پرجوش اندازمیں استقبال کیا شوکت عالم اسلام تھے فخری زادہ۔۔۔کتنے خوش زی وخوش انجام تھے فخری زادہ۔۔ظلم اور کفرکی آنکھوں کیلئے خار رہے۔۔دست حق کیلئے صمصام تھے فخری زادہ۔

محترم احمدحسین شھریار نے اس پروگرام کی اپنی آخری نظامت میں کچھ فارسی کے کلام بھی پیش کئے اور پھر اس اعلان کے ساتھ کہ انشاع اللہ ۳جنوری کو شھید سردار سلیمانیؒ اور ابوالمہدی کی برسی کے سلسلے سے پروگرام اسی جگہ پر منعقد ہوگا ،،دعائے امام زمان عجل کے ساتھ پروگرام کو اختتام پزیرکیا، اور آخر میں معاونت فرھنگی مجتمع کے ہاتھوں شعراع کرام نے نفیس انعامات حاصل کئے۔ 


 

لیبلز

تبصرہ ارسال

You are replying to: .